Eid عید
مسلمان رمضان کے بابرکت مہینے کے بعد عید کا تہوار مناتے ہیں۔ جسے عید الفطر کہتے ہیں۔ یہ یوم شوال المکرم کو منایا جاتا ہے۔ عید الفطر اسلامی کیلنڈر کے دسویں مہینے شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے۔جو دنیا کے کونے کونے میں منائے جاتے ہیں۔ عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔عید رمضان کے انتیس یا تمیں روزوں کے بعد آتی ہے۔ رمضان کا مہینہ خاص عبادت اور اللہ کی رضا و خوشنودی کا مہینہ ہے۔ انتیس یا تیسویں روزے کو عید کا چاند دکھائی دیتا ہے۔ چاند دیکھتے ہی مسلمان چاہے بچے ہوں یا بڑے سب خوش ہو جاتے ہیں۔ دوسرے دن صبح نماز دوگانہ ادا کرتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کر کے ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔اسی طرح عیدالاضحی جس کو بقرعید کے نام سے بھی پکارتے ہیں یہ مسلمان کا دوسرا بڑا تہوار ہے۔ اس تہوار کے موقع پر مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے بکرا، دنبہ یا اونٹ وغیرہ کی قربانی کرتے ہیں۔عید کے موقع پر قصبوں اور شہروں میں میلے لگتے ہیں۔ ان میلوں میں مختلف قسم کی دکا نہیں لگتی ہیں۔ مختلف قسم کی مٹھائیاں اور پکوان بنتے ہیں۔ لیکن عید کی خاص چیز سوئیاں یا شیر ہوتی ہے۔ عید کے موقع پر بچوں کو عیدی بھی دی جاتی ہے۔ جس کو وہ کھانے پینے کی چیزوں اور کھیل کھلونوں کی نظر کر دیتے ہیں۔ اس موقع پر ایک دوسرے کو دور دراز علاقوں میں عید کارڈ بھی بذریعہ ڈاک بھیجے جاتے ہیں۔
Mera Pasand Deeda Shayar میرا پسند دیدہ شاعر
اقبال مسعودی غیر منقسم ہندوستان کے مشہور شاعر، رہنما اور فلسفی تھے۔ اردو اور فارسی میں ان کی شاعری کا شمار دور جدید کی بہترین شاعری میں ہوتا ہے۔اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مولوی سید میر حسن سے بنیادی تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور چلے گئے جہاں سے انہوں نے بی اے اور ایم اے کے امتحانات نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کئے۔ چونکہ بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا اس لئے ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں ہندوستان میں داغ دہلوی کی شاعری کا زور تھا۔ 1902ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے فلسفہ اور فارسی ادب کا باریکی سے مطالعہ کیا۔تعلیم کے سلسلے میں وہ جرمنی بھی گئے۔ وہاں سے لندن واپس آکر بیرسٹی کا امتحان پاس کیا اور ہندوستان واپس چلے آئے۔ اقبال نے شاعری کی ابتداء میں غزلیں کہیں۔ لیکن اس سے وہ زیادہ دنوں تک بندھے نہیں رہ سکے۔ پھر نظمیں کہنا شروع کیں۔ وہ رومی کی صوفیانہ صلاحیتوں کے قائل تھے۔ ان کے کلام میں معاشرتی اصلاح، حب الوطنی، قومی ہمدردی، مذہبی اور سیاسی نظریات موجود ہیں۔ اقبال کا کلام بانگ درا”، “بال جبریل”، “ضرب کلیم” اور “ارمغان حجاز” جیسے مجموعوں پر مشتمل ہے۔
Waqt Ki Pabandi وقت کی پابندی
کہا جاتا ہے کہ اس وقت کی قدر کرو کیونکہ یہ تمہارا فائدہ ہے اور اگر آپ نہیں کرتے تو وہ وقت آپ کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ وقت کی پابندی کا مطلب ہے ہر کام کو وقت پر کر کے اس کا پابند رہنا۔ وقت کی قدر و قیمت کو نہ سمجھنا نادانی ہے۔ جو لوگ دُنیا میں وقت کی قدر نہیں جانتے وہ ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں۔ قدرت اپنے تمام کام مقررہ وقت پر ہی انجام دیتی ہے۔ قانون قدرت کو اگر ہم دیکھیں اور اس پر غور کریں تو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آئے گا کہ اللہ بھی وقت پر سورج کی حرارت میں ہمارے لیے تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ یعنی وقت پر صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے اور وقت پر شام کو غروب ہوتا ہے۔ چنانچہ نظام کا ئنات بھی وقت کا پابند ہے۔
وقت پر موسموں کے تغیر کو عمل میں لا کر زمین سے اناج ، غلبہ اور ہر قسم کی کھانے کی چیزیں ہم اللہ تعالی کی مرضی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ وقت پر اگر ہم بیج نہ ہوئیں تو فصل نہیں اُگ سکتی ۔ اگر وقت پر بچے کی تعلیم و تربیت پر دھیان نہ دیں تو وہ بچہ بڑا ہو کر جاہل ، ان پڑھ، گنوار اور بے تربیت ہی رہتا ہے۔ درخت سے پھل اور پھول وقت پر ہی نکل آتے ہیں اس حقیقت کی روشنی میں ہم کو چاہیے کہ ہم وقت کی قدر کریں۔ اسے انمول اور اہم جانیں۔ ایک طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی تعلیمی ادارے میں داخل کیا جاتا ہے۔ وہ بچہ اگر وقت پر اسکول کا کام کرے تو وہ وقت آنے پر کامیاب ہوگا ۔ اس کے برعکس اگر کوئی طالب علم وقت کو نظر انداز کرتا ہے تو یقیناً وہ نا کام ہو جائے گا۔ اس طرح اس کی زندگی آگے چل کر تباہ و برباد ہوسکتی ہے۔ یہ محض امتحان کی بات نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں وقت پر کیا جانے والا کام اچھے پھل لاتا ہے۔ میدانِ جنگ میں اگر ایک سپاہی دُشمن کے ساتھ لڑنے میں مصروف ہو اور وہ وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھے تو اس کی غفلت سے فتح بھی شکست میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ زمین کی گردش اگر ذرا بھی رُک جائے تو دنیا میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ کسی جگہ چشمہ پھوٹ پڑے اور اس میں پانی کی دھار نکل آئے تو ہم آنکھ میں کا جل ڈالنے والی تیلی پر سرما اٹھا کر اس چشمے کے پانی کے منبع پر ڈال دیں تو پانی ضرور بند ہو سکتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے بعد کے منبع پر ہاتھیوں کو بھی وہ پانی بند کرنے کی خاطر ڈال دیں تو پانی رُک نہیں سکتا ۔ مطلب اس کا واضح ہے کہ وقت پر عمل کر کے ہم فائدے میں رہ سکتے ہیں اور وقت گزر جانے کے بعد کچھ بھی ہاتھ نہیں آسکتا۔
Mustaqbil Ke Mansoobe مستقبل کے منصوبے
ہر انسان کی زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ہوتی ہے، اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اللہ نے اس دنیا میں سبھی لوگوں کو کسی نہ کسی مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے اور انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہوش سنبھالنے کے بعد کسی نہ کسی منصوبے کو اپنے ذہن میں بسا لیتا ہے۔ ہر آدمی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جد و جہد بھی کرتا ہے۔ بغیر مقصد اور کوشش یا بنا منصو بے اور جدوجہد کی یہ زندگی بے کا رو بے معنی ہے اور اس راستے کی طرح ہے جس سے کسی منزل تک نہیں پہنچا جاتا۔ مقصد کے حصول کے لیے کی جانے والی جد و جہد میں ہی زندگی کا اصل مزا چھپا ہوتا ہے۔ رفتار کے لیے مقصد کا ہونا یا منصوبے کے تحت کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔ میں درجہ 10 کا طالب علم ہوں۔ میرا بھی ایک منصوبہ ہے۔ میں بڑا ہو کر مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں اور سماجی خدمت انجام دینا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر کا پیشہ بڑا با عزت پیشہ ہے۔ ڈاکٹر بن کر بیمار لوگوں کی خدمت کرنے میں ایک عجیب قسم کی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اس پیشے کی اہمیت، سادگی اور خوشی کو دیکھتے ہوئے میں نے ڈاکٹر بننے کا منصوبہ بنایا ہے۔ مستقبل کے لیے میرا یہی منصوبہ سب سے اول نمبر پر ہے۔ اپنی نصابی کتب کا بھی بغور مطالعہ کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر بنے کے لیے میں بڑی سے بڑی مشکل سے گزرنے کے لیے بھی تیار ہوں۔ میرے والدین اور اساتذہ بھی مجھے ایک قابل اور کامیاب ڈاکٹر بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے مقصد یا منصوبے سے قریب تر ہونے کے لیے محنت اور لگن بہت ضروری ہے۔ وہ مجھے میرے مقصد میں کامیاب ہونے اور منصوبے تک پہنچنے کے لیے دعا ئیں بھی دیتے ہیں۔ انشاء اللہ میں اپنے منصوبے کو حاصل کر کے رہوں گا۔