Tandrusti Hazar Nemat Hai تندرستی ہزار نعمت ہے
صحت وہ نعمت ہے دنیا میں جس کا کوئی مول نہیں۔ یہ دولت دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ دنیا میں کو ئی شخص اس دولت کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ شاید دُنیا میں ایسا کوئی انسان نہ ہوگا جو اچھی صحت کا خواہش مند نہ ہو۔ صحت دُنیا کی تمام نعمتوں سے افضل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تندرستی دنیا کی ہزاروں نعمتوں پر بھاری ہے۔ یہ خدا کا ایک انمول عطیہ ہے جو اس نے اپنے بندوں کو دیا ہے۔ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جو چیزا سے مفت ملتی ہے وہ اس کی اہمیت نہیں سمجھتا۔ اس کی اہمیت کا احساس انسان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ چیز اس سے چھن جاتی ہے۔ صحت کی اہمیت کا بھی پتہ انسان کو تب ہوتا ہے جب اسے کوئی بیماری لگ جاتی ہے۔ دنیا کی ساری چیزیں اس وقت انسان کو بے لذت نظر آتی ہیں اور وہ جلد از جلد دوبارہ صحت مند ہونے کی تمنا کرتا ہے۔ صحت کے بغیر دنیا کے تمام عیش و آرام اور مال وغنا بے کار ہیں۔دنیا کے تمام دانشورو اور مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایک تندرست جسم میں ایک تندرست دماغ رہتا ہے۔ایک فلسفی کہتا ہے کہ اگر دولت کھوگئی تو کچھ نقصان نہیں ، وہ دوبارہ حاصل ہوسکتی ہے مگر صحت کھوگئی تو سب کچھ کھو گیا۔انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی صحت کو بہتر بنائے رکھنے کی کوشش اور امراض سے بچنے کی تدابیر کرتا رہے۔ صحت ایک بیش قیمت شے ہے جو روپیہ سے نہیں خریدی جاسکتی۔ خدا جس کو چاہتا ہے اس بیش بہا خزانے سے نوازتا ہے۔ لہذا صحت کی دیکھ بھال نہایت ضروری ہے
Taleem Niswan تعلیم نسواں
انسانی معاشرے کے دو اہم اجزا ہیں۔ ۔ ”مرد اور عورت ۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پیسے ہوتے ہیں۔ ذرا سوچو اگر گاڑی کا ایک پہیا اعلیٰ درجہ کا ہوگا اور دوسرا گھٹیا اور بیکار ہو تو اُس گاڑی کا اپنی منزل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب تک مرد اور عورت تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو قوم مہذب اور شائستہ نہیں کہلا سکتی اس لئے مرد اور عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتوں کو پڑھانے سے کیا فائدہ انہیں ملازمت تھوڑی کرنی ہے۔ انگریزی حکومت میں تعلیم کا مقصد صرف ملازمت حاصل کرنا ہی تھا۔ اب ہم آزاد ہیں۔ اچھی تعلیم حاصل کر کے ملک وملت کی بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ ماں بچے کی پہلی اتالیق ہوتی ہے۔ جو کچھ بھی بچہ ماں کی گود میں سیکھ جاتا ہے وہ اُس کے دل پر چھپ جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ عورتیں اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرتی ہیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی مناسب اور پوری توجہ کرتی ہیں۔ عورتوں کے فرائض کے اعتبار سے ہی اُن کو تعلیم ملنی چاہئے ۔ عورتیں عام طور پر مذہب کی دلدادہ ہوتی ہیں۔ اگر انھیں با قاعدہ تعلیم دی جائے تو وہ بھی اپنے بچوں کو نہایت عمدہ طریقہ پر مذہب کے اصول سمجھا سکتی ہیں۔ جو بچے بچپن سے ہی مذہبی خیالات کو اپناتے ہیں۔ وہ زندگی بھر گمراہ نہیں ہو سکتے ۔ گھر کا تمام خرچ عورتیں اُٹھاتی ہیں۔ عورتیں اگر حساب سے واقف نہ ہوں گی تو فضول خرچی گھر کے لئے مصیبت کھڑی کر سکتی ہے وہ آمد و خرچ کا حساب نہ رکھ سکیں گی۔ زبان میں شیرینی اور شستگی عورتوں ہی کے محاوروں اور دلکش ترکیبوں سے آتی ہے۔ اس لئے عورتوں کی زبان سیکھ لینا ضروری ہے۔ اس لئے عورتوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا احکام عقل کے عین مطابق ہے۔ کچھ لوگ لڑکیوں کو کند ذہن بتاتے ہیں۔ لیکن یہ بات ایک دم غلط ہے۔ میڈم کیوری نے ریڈیم کی تلاش سے دنیا کے اوپر احسان کیا ہے۔ اس لئے لڑکیوں کو تعلیم دینا بہت ضروری ہے۔
Hubbul Vatni حب الوطنی
وطن سے محبت انسان کی عادت میں شامل ہے۔ جس ملک میں محب وطن نہ ہوں وہ کبھی ترقی نہیں کرتا بلکہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ملک میں بھی محبان وطن کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ آپسی پھوٹ کی وجہ سے محبانِ وطن کی کمی ہو گئی اور ملک انگریزوں کا غلام ہو گیا۔ لیکن دوبارہ پھر محبانِ وطن کیتعداد بڑھی تو انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور ہمارا ملک محبانِ وطن ہی کی بدولت پھر آزاد ہو گیا۔ اگر انسان کے دل میں وطن کی محبت نہیں تو وہ انسان نہیں، بلکہ پتھر ہے۔ پتھر بھی پہاڑ سے الگ ہو جانے پر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ مویشی ، پودے اور درختوں میں یہ جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب کسی درخت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے یا پھر پھل کم دینے لگتا ہے۔ اگر چہ ملیح آباد کے آم، باغیت کے خربوزے، سنبھل کے پیر اور الہ آباد کے امرؤ د بہت مشہور ہیں، لیکن اگر ان پیٹوں کو دیگر جگہوں پر لگایا جاتا ہے تو وہ بات نہیں پائی جاتی جو ان کے اپنے خطے میں ہوتی ہے۔ اسی طرح حب الوطنی بھی انسان کے دل میں بہت ضروری ہے۔ ویسے بھی وطن سے محبت ہونا ہر انسان کا فرض ہے۔ اگر انسان کے دل میں وطن کی محبت نہیں ہے تو اسے ملک کا شہری اور باشندہ ہونے کا حق نہیں ہے۔ وطن کی محبت ہر انسان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہونی چاہیے۔حُبّ الوطنی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم صرف ایک سپاہی ہو جائیں ، نہ ہی حُبّ الوطنی یہ ہے کہ ہم اپنے ملک سے دور ہونے پر آنسو بہائیں اور مرجائیں۔ حُبّ الوطنی کا مطلب بہت وسیع ہے۔ ملک کے افراد کے دکھ درد اور ان کی تکلیفوں میں شامل ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ملک کی ترقی کے لیے ہر وقت کوشاں رہنا اور وقت مشکل ملک کی حفاظت کرنا اور ملک کی ترقی کے لیے کوشاں رہنا بھی حُب الوطنی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ہمیں اپنے ملک کا نام اونچار کھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہمیں اچھا، ایماندار اور نیک شہری بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے کہ جب ہمیں اچھی تعلیم حاصل ہوگی۔ ہمیں ملک کی طرح بود و باش ، باہمی بھائی چارا سے لگاؤ ہونا چاہیے۔ ہمیں خود اعتماد ہونا ، اندرونی اور بیرونی دونوں حدوں سے باخبر رہنا بھی بہت ہی ضروری ہے۔
Taj Mahal Ya Agra Ki Sairتاج محل یا آگرہ کی سیر
یوں تو ہندوستان میں لاتعداد تاریخی عمارتیں ہیں لیکن آگرہ کی عمارتیں اپنی شان و شوکت کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ آگرہ میں اعتمادالدولہ کا مقبرہ ، موتی مسجد، جامع مسجد فنچو رسیکری ، لال قلعہ اور تاج محل مخصوص عمارتیں ہیں۔ تاج محل تو دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے۔ تاج ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک ہے جس کو دیکھنے کے لیے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ تاج محل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کے مرنے کے بعد اس کی یاد میں بنوایا تھا۔ ممتاز محل سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا۔ یہ محبت عشق ، جنون کی حد تک بڑھ گئی تھی۔ بیگم نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پر ایک ایسی عمارت بنائی جائے جو ہماری محبت کی نشانی ہو یہ محبت کی نشانی تاج محل کی شکل میں بنی۔ اسکے بننے میں ۲۲ سال لگے ۔ کہا جاتا ہے کہ ۲۲ کروڑ روپیے اس کے بنانے میں خرچ ہوئے تھے ۔ تاج محل جمنا ندی کے کنارے ایک خوبصورت کھلونے کی مانند رکھا ہے۔ اس عمارت کو بنے سینکڑوں سال ہو گئے مگر محبت کی یاد گار آج تک زندہ ہے۔ یہ ایک زندہ جاوید محبت کی نشانی ہے۔ اس کو دیکھنے کی میری بڑی خواہش تھی۔ پچھلے سال گرمیوں کی چھٹی میں محمد راشد محمد زاہد اور ہم سب نے آگرہ کا پروگرام بنالیا اور سب لوگ ٹرین سے آگرہ پہنچے۔ جمنا کے کنارے خوبصورت پل سے آگرہ کی تمام خوبصورت عمارتوں کا نظارہ ہورہا تھا۔ تاج محل اور لال قلعہ دور سے اپنی شان و شوکت کےساتھ مغل بادشاہوں کی عظمت کی گواہی دے رہے تھے۔ ٹرین راجہ کی منڈی اسٹیشن پرڑ کی ۔ ہم سب نے آپس میں طے کیا کہ سب سے پہلے اعتمادالد ولہ کا مقبرہ پھر جامع مسجد ، لال قلعہ۔ اس کے بعد تاج محل چلیں گے۔ ایک تانگہ کیا اور پھر ہم لوگ اعتماد الدولہ کے مقبرہ کے جانب چلے۔ جمنا کے پل پر سے تانگہ گزر رہا تھا تو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ پل پار کر کے اعتمادالدولہ کا مقبرہ آیا اس کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ صرف ایک مقبرہ ہو گا لیکن وہ ایک بہترین عمارت ہے اس کی نقاشی قابل تحسین و داد ہے۔اس عمارت کے ذریعہ شاہجہاں نے اپنی محبت کو زندہ رکھا ہے۔ تاج محل کے آس پاس کئی خوبصورت عمارتیں ہیں۔ لیکن تاج محل کی خوبصورتی سے ان کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ یہ بے مثال عمارت آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے پر واقع ہے۔ صدر دروازے پر قرآن شریف کی آیات لکھی ہیں۔ پورے چاند کی رات میں اس عمارت کی خوبصورتی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔
