Yaume Jamhooriya, Barish Ka Mausam, Science Ke Fawayad Aur Nuksanaat, Computer Ki Ahmiyat

Yaume Jamhooriya یوم جمہوریہ

پورے ملک میں ۲۶ جنوری کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے، لیکن دہلی میں جو کہ ملک کی راجدھانی ہے اس عظیم دن کو منانے کا اتنا شاندار اہتمام کیا جاتا ہے کہ دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے دہلی پہنچتے ہیں ۔ ۲۶ جنوری مانے کی تیاریاں دہلی میں مہینوں پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ جوں جوں دن قریب آتا جاتا ہے تیاریوں میں زور و شور پیدا ہوتا جاتا ہے۔ انڈیا گیٹ کے آس پاس دور تک لوگوں کے بیٹھنے اور دیکھنے کے لیے احاطے بنا دیے جاتے ہیں ۔ سڑکوں اور ٹریفک کا انتظام اس طرح کیا جاتا ہے کہ جلوس کے گذرنے میں رکاوٹ نہ آنے پائے۔ جن سڑکوں سے جلوس کو گزرنا ہوتا ہے وہاں راستے میں دور تک قومی جھنڈے نصب کیے جاتے ہیں ۔ لوگ ۲۶ جنوری کی رات سے ہی ان سڑکوں اور مکانوں کے قریب جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں جہاں سے جلوس کو گزرنا ہے۔ انڈیا گیٹ کے میدان میں بھی لوگ پہلے سے آکر سامنے کی جگہیں گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ خصوصی مہمان یا وہ لوگ جن کے پاس اجازت نامہ ہوتا ہے جگہ کے لیے اتنے پریشان نہیں ہوتے ، کیوں کہ ان کے لیے جگہ کا انتظام رکھا جاتا ہے۔۲۶ جنوری کا پروگرام صبح سے پہلے صدر کو سلامی دے کر شروع کیا جاتا ہے۔ صدر کو سلامی دینے کے لیے بری، بحری اور ہوائی فوج تینوں کے دستے اپنی اپنی یونیفارم میں بڑی شان سے آتے ہیں ور دیکھنے والوں کو ہندستانی فوج کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔ سلامی لینے کے بعد صدر ان لوگوں کو انعامات دیتا ہے جنہوں نے جنگ میں بہادری اور ذاتی قربانی کے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں جنھوں نے سائنس، ادب کھیل کو دیا زندگی کے کسی بھی اہم شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔

Barish Ka Mausam بارش کا موسم

موسموں میں خاص موسم تین ہیں : – جاڑا ، گرمی اور برسات۔ ہمارے ملک کے شمالی حصوں میں جاڑے کا موسم یعنی موسم سرما نومبر کے مہینے سے فروری کے مہینے تک رہتا ہے۔ مئی اور جون میں یہاں شدت کی گرمی پڑتی ہے، سخت تیز دھوپ اور ٹو کی وجہ سے جنگلوں کی ہریالی ختم ہو جاتی ہے، پیڑ پودے بھی مُرجھانے لگتے ہیں۔ ندی نالے سب سوکھ جاتے ہیں۔ گرمی اور پیاس سے تمام حیوانات (یعنی ہر جاندار ) بے حال نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جولائی کا مہینہ شروع ہوتے ہی موسم برسات کی آمد ہوتی ہے۔ قدرت کی طرف سے موسم برسات ہر انسان، جانور، پرند و چرند، شجر وحجر اور نباتات سب ہی کے لیے ایک رحمت بن کر آتا ہے۔ملک کے شمالی علاقوں میں برسات کا یہ خوشگوار موسم 15 جون سے 15 ستمبر تک مانا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم کے فوراً بعد موسم برسات سوبھی زمین، مرجھائی فصلوں اور پریشان حال انسانوں نیز تمام جانداروں کے شادابی و خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔ گھٹاؤں کو دیکھ کر لوگوں کے دل خوشی سے جھوم جاتے ہیں اور بارش ہونے کے بعد گرمی کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ ہر طرف ہریالی نظر آنے لگتی ہے۔ کھلائے ہوئے پیڑ پودوں میں جان آجاتی ہے۔ کسان لوگ اپنے کھیتوں میں جوار، باجرا، اُڑ د، مونگ اور دھان کی بوائی کرنے لگتے ہیں۔ شمالی ہند میں جولائی ، اگست اور ستمبر کے پہلے عشرے میں بارش خوب ہوتی ہے۔ موسم برسات بڑا سہانا اور پر کیف موسم ہے۔ جوان، بوڑھے، بچے ، عورت و مرد سب ہی اس کا لطف اُٹھاتے ہیں۔ ہر طرف بہار ہی بہار نظر آ رہی ہوتی ہے۔ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ بجلی کی اہمیت ہماری روز مرہ زندگی میں کتنی ہے۔ یہ بجلی بارش کے پانی کو جمع کر کے بنائی جاتی ہے۔ اس موسم میں آم، جامن اور بھنے ہوئے گرم گرم بھٹوں کے مزے سے ہر شخص واقف ہے۔ باغوں میں لڑکیاں جھولے ڈالتی ہیں اور ساون کے گیت گاتی ہیں۔ ساتھ ہی لڑکے بھی لمبی لمبی پتنگوں کا مزہ لیتے ہیں۔ برسات کے موسم سے جہاں بے شمار فائدے ہیں وہیں کچھ نقصانات بھی ہیں۔ کئی روز کی مسلسل موسلا دھار بارش سے کچھ جگہوں پر سیلاب آ جاتا ہے جن کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ زمین غرقاب ہو جاتی ہیں اور فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ مکانات گر جاتے ہیں۔ سڑکوں اور نالوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے آمد و رفت کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر جاتے ہیں ۔

Science Ke Fawayad Aur Nuksanaat سائنس کے فوائد اور نقصانات

اس دور میں سائنس نے زندگی کے ہر شعبہ میں بہت ترقی کی ہے۔ لیکن جہاں سائنس کی ترقی سے بہت سارے فائدے ہیں، وہیں بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ اس دور میں جس ملک نے سائنس کے میدان میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے وہی ملک دوسرے ملکوں پر ایک نمایاں طاقت کے طور پر حاوی ہے۔ امریکہ، جاپان، روس اور چین وغیرہ ممالک کی ترقی کا راز سائنس ہی ہے۔پہلے زمانے میں آمد و رفت کے لئے لوگ گھوڑے، اونٹ اور خچروں کا استعمال کرتے تھے لیکن سائنس نے ترقی کی اور نئی نئی ایجادات سامنے آئیں۔ جن میں ریل اور ہوائی جہاز آمد و رفت کا بہترین ذریعہ بن گئے ۔ آمد و رفت کے ان ذرائع سے کافی لمبا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔بظار ہر چاند پر جانا ناممکن سا لگتا تھا لیکن تیز رفتار راکٹوں کے ذریعہ انسان کا چاند تک پہنچنا آسان ہو گیا۔ سائنس کے ذریعہ ہی کمپیوٹر کی ایجاد ہوئی۔ اس مشین کے ذریعہ لاکھوں کروڑوں الفاظ مشینی یادداشت میں قید کر لئے جاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ آج زندگی کے ہر شعبہ میں کمپیوٹر کی افادیت بڑھی ہے۔ ہندوستان جیسے ترقی پزیر ملک میں بینکوں سے لے کر دوسرے دفاتر تک میں کمپیوٹر کا چلن عام ہو گیا ہے۔طلب وصحت کے میدان میں بھی سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ پہلے زمانے میں طاعون اور ٹی بی جیسے امراض کا کوئی مؤثر علاج نہ تھا۔ لیکن اب ایسی دوائیں ایجاد ہو چکی ہیں جن سے متعلقہ امراض کا علاج ممکن ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ ایکسرے سے لے کر دوسری مشین تک ایجاد ہو چکی ہیں جن سے جسمانی اعضاء اور ان سے متعلق امراض کا پتہ آسانی سے چل جاتا ہے۔

Computer Ki Ahmiyat کمپیوٹر کی اہمیت

گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ملک میں کمپیوٹر کا تذکرہ زور شور سے ہو رہا ہے۔ ملک کو کمپیوٹرائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زیادہ تر کاروباری اداروں اور صنعتوں میں کمپیوٹر کا استعمال ہونے لگا ہے۔ کتنے ہی سرکاری دفتروں میں کمپیوٹر لگانے کی ہوڑ لگی ہے۔ آئیے ! یہ جانیں کہ یہ کمپیوٹر کیا ہے؟ یہ ایک ایسا مشینی دماغ ہے جس میں مختلف قسم کے ضابطوں کو ایک ہی پروگرام کے تحت پہلے ہی اس میں ڈال (Feed) دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد پر کمپیوٹر مختصر وقت میں شمار کر کے حقائق کو پیش کر دیتا ہے۔ جس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے انسان کو کئی دن لگ جاتے ہیں اسی کام کو کمپیوٹر منٹوں میں حل کر دیتا ہے۔ کمپیوٹر کا مرکزی دماغ اپنے سارے کام دو حصوں یا اشاروں کی حسابی زبان میں کرتا ہے۔ اس طرح اب الفاظ یا اسباق کو یہاں تک کہ کتابوں اور فائلوں کو بھی کمپیوٹر کے یادداشت کے ذخیرے (Hard Disk) میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے اور اس محفوظ کئے گئے مواد کو کبھی بھی اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے۔کمپیوٹر کا استعمال نہ صرف دفتروں اور بینکوں میں ہو رہا ہے بلکہ اس کا استعمال اطلاعات و نشریات کے لئے بھی کیا جا رہا ہے۔ اب انٹرنیٹ کے ذریعہ ملک و بیرون ملک کے شہروں اور دیہاتوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا کام کیا جا چکا ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعہ سائنس کی تحقیقات اور تجربات میں بھی مدد لی جاتی ہے۔ خلائی سائنس کے میدان میں کمپیوٹر نے انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ ان کے ذریعہ خلاء کی وسیع پیمانے پر تصاویر اتاری جا رہی ہیں اور ان تصاویر کا تجزیہ کمپیوٹروں کے ذریعہ ہی کیا جا رہا ہے۔ صنعتی میدان میں بھی کمپیوٹر نے اپنا قبضہ کر لیا ہے۔ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر اور انسانی دماغ میں سے کون بہتر ہے۔ تو یہ ایک حقیقت ہے کہ کمپیوٹر کو انسانی دماغ نے بنایا ہے اور انسانی دماغ کو اللہ نے بتایا ہے۔ لہذا کمپیوٹر انسانی عقل سے بڑھ کر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ انسانی جذبات و احساسات سے پر محض ایک مشین ہے اور یہ مشین صرف وہی کام کر سکتی ہے جس کے لئے اسے ہدایت (advice) دی گئی ہو ۔ وہ کوئی بھی فیصلہ خود سے نہیں لے سکتا اور نہ کوئی نئی بات سوچ سکتا ہے۔ ہندوستان میں جس تیزی سے کمپیوٹر کا استعمال ہو رہا ہے، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے کام کاج کو مکمل طور پر کمپیوٹر سے کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔دنیا کا سب سے پہلا کمپیوٹر انیسویں صدی کے شروعاتی دور میں بنایا گیا تھا۔ اس کے بنانے والے ایک انگریز چارلس بھیج Charls Babbage ہیں۔