Gazal غزل
غزل اردو کی مقبول عام صنف سخن ہے جو فارسی سے اردو ادب میں آئی۔ اُردو میں بہت سے شعراء نے اسی سے اپنے کلام کی شروعات کی۔ حالی ، جوش ، حسرت، اقبال، فیض ، اصغر، جگر وغیرہ نے غزل کو فروغ دیا۔ بناوٹ کے اعتبار سے غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہوتے ہیں جس کو مطلع کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کچھ اشعار اسی قافیہ وردیف پر آجاتے ہیں تو بالترتیب مطلع ثالث اور مطلع رابع کہلاتے ہیں۔ غزل کے معنی محبوب سے محبت کی باتیں کرنا ہیں۔ مگر یہ درست نہیں کہ ان خیالات کے نہ ہونے پر غزل غزل نہ ہوگی۔ پھر بھی مولانا حسرت موہانی کے بقول ”غزل کی بہترین قسم عاشقانہ ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے اور پورے معنی رکھتا ہے۔ غزل میں شاعر اپنے دلی جذبات ظاہر کرتا ہے۔ غزل اردو شاعری کی ایک قدیم ترین اور خاص صنف ہے۔ غزل میں خارجی حسن مثلاً گیسو، رخسار، چہرہ اور جسم کی وضع وغیرہ کا بھی اظہار ملتا ہے اور حسن و عشق کی داخلی وردات اور اندرونی کیفیات کا بھی۔ اس لیے غزل کو موضوعی صنف بھی کہا گیا ہے۔غزل حسن و عشق کی ترجمان اور محبت کی داستان ہے۔ اس میں رمز و کنایہ، تشبیہ و استعارہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس میں رفتہ رفتہ تصوف، اخلاق اور دنیاوی خیالات بھی نظم کیے جانے لگے جس سے غزل حسن و عشق تک محدود نہ رہی۔ جب تک دنیا میں چاندنی، بہار، نغمہ ، جوانی ، بلبل وگل اور سبزہ وصحرا موجود ہے، غزل بھی زندہ و تابندہ رہے گی۔ رشید احمد کے بقول ” غزل ایک تاج محل ہے۔ غزل کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔
Khaka Nigari خاکہ نگاری
خا کہ انگریزی لفظ اسکیچ کا ترجمہ ہے۔ اُردو میں خاکہ کے لیے ” مرقع اور قلمی تصویر کی اصطلاحیں بھی استعمال کی گئی ہیں۔ آج کل ”خاکہ ہی اصطلاح رائج ہے۔ خاکہ سے مراد ایک ایسی نثری تحریر ہوتی ہے جس میں کسی شخصیت کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے اس میں جس شخص کی تصویر کشی کی جاتی ہے اس کے خیالات و افکار سیرت و کردار، عادات و اطوار سب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ خاکے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جس شخصیت کے بارے میں مطلع کیا جارہا ہو اُس شخص کی ظاہری و باطنی خصوصیات میں سے ایسے نمایاں اوصاف کا بیان کیا جائے جو اس منفرد شناخت اور پہچان کے ذریعہ کی انفرادی خصوصیات کا بھر پور تاثر چھوڑ نا خاکہ نگار کا مقصد ہوتا ہے۔ یہ اثر جتنا بھر پور اور مکمل ہوگا خا کہ اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ اس کے لیے خاکہ لکھنے والے کا اس انسان کی شخصیت سے نہ صرف متاثر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے مکمل واقفیت اور قربت بھی ضروری ہے۔ پہلی ملاقات یا چند ملاقاتوں کے تاثرات کی بنیاد پر کسی کا خاکہ لکھ دینے سے خاکہ نگاری کا حق ادا نہیں ہوتا۔ خاکہ نگاری سوانح حیات سے مختلف ہے۔ اس میں سوانح حیات کی طرح واقعات ترتیب وار نہیں لکھے جاتے۔ حالات و واقعات کا بیان کرنا ضروری بھی نہیں ہے خاکہ نگاری میں حالات و واقعات شخصیت کی تصویر کشی کے لیے پس منظر فراہم کرتے ہیں۔صرف ان ہی اہم واقعات کا بیان ضمنی طور پر کیا جاتا ہے جو شخصیت کے کسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔ خاکہ نگار کسی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کا خاکہ ضرور لکھتا ہے لیکن اس کی تحریر سے مرعوبیت کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا بیان ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غیر جانب دارانہ نظر آئے اس لیے یہ ضروری ہے کہ خاکے میں شخصیت کو خوبیوں اور خامیوں دونوں کو بیان کیا جائے ورنہ شخصیت کی مکمل تصویر سامنے نہ آسکے گی جو خاکہ نگاری کا اصل مقصد ہے۔ جس طرح خوبیوں کا بیان مرعوبیت سے پاک ہونا چاہیے اسی طرح خامیوں کے بیان میں بھی اپنائیت کا احساس نمایاں ہونا چاہیے۔ خاکہ نگار اپنے موضوع کو جس طرح دیکھتا سمجھتا اور اس سے متاثر ہوتا ہے اسی طرح اس کی تصویر پیش کرنی چاہیے تا کہ پڑھنے والے بھی اس سے اسی طرح متاثر ہو سکیں اور اس شخصیت کی منفرد خصوصیات کو پہچان سکیں ۔
Qata قطعه
رُباعی کی طرح قطعہ بھی چار مصرعوں کی نظم ہوتا ہے۔ لیکن رباعی اور قطعے میں دو باتوں کے لحاظ سے بنیادی فرق ہے۔ اول یہ کہ رباعی کے لیے بحر ہزج مخصوص ہے۔ جبکہ قطعہ کسی بھی بحر میں کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ رباعی کے پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے جب کہ قطعہ میں یہ شرط نہیں اور دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قطعہ کلاسیکی شاعروں کے یہاں عموماً غزل کے اشعار میں ملتا ہے۔ قطعہ بندا شعار غزل کے اندر دو بھی ہو سکتے ہیں اور دو سے زیادہ بھی۔ لیکن آج کل کے شعرا نے قطعے کو رُباعی کی طرح صرف چار مصرعوں سے مخصوص کر دیا ہے۔ لیکن یادر ہے کہ رباعی کے برعکس قطعے کی کوئی مخصوص بحر نہیں ہوتی اور قطعہ کسی بھی بحر میں کہا جاسکتا ہے۔
Qaseeda قصیده
قصیدہ عربی میں گاڑھے گودے کو کہتے ہیں چونکہ قصیدے میں شاعر کو انتہائی ذہنی قوت صرف کر کے اس کا نچوڑ پیش کرنا ہوتا ہے اس لیے اس کا یہ نام پڑا۔ کچھ علماء کے نزدیک قصیدہ ” قصد سے بنا ہےچونکہ شاعر ارادہ کر کے ایک خاص موضوع پر پوری توجہ کے ساتھ فکر شعر کرتا ہے اس لیے صنف شعر کا نام “قصیدہ پڑا ۔ اصطلاح میں قصیدہ اس صنف نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مدح یا ندمت کی جاتی ہے۔ غزل کی طرح قصیدہ کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اسے مطلع کہتے ہیں۔ باقی اشعار کے صرف دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی قصیدے میں ایک سے زیادہ مطلعے بھی ہوتے ہیں۔ غزل کے برعکس یہ زائد مطلع عموماً اشعار کے بیچ میں آتے ہیں۔ قصیدے میں عام طور پر مدح یا مذمت نصیحت و موعظت یا مختلف حالات و کیفیات وغیرہ کا بیان کیا جاتا ہے۔ غزل کی طرح قصیدہ بھی ہر بحر میں لکھا جا سکتا ہے۔ اقسام : بیت کے اعتبار سے قصیدے کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ (1) خطابیہ:– جب قصیدہ براہِ راست مدح یا مذمت سے شروع ہوتا ہے تو خطابیہ کہلاتا ہے مثلاً سودا کا قصیدہ ” آیا عمل میں تیغ سے تیری وہ کارزار (2) تمہیدیہ: جب قصیدہ براہ راست اصل موضوع سے شروع نہیں ہوتا اور اس میں تمہید کے طور پر کچھ اشعار شامل ہوتے ہیں تو ایسے قصیدے کو تمہید یہ قصیدہ کہتے ہیں۔